انڈیا میں کووڈ 19: انڈیا میں کورونا وائرس کے باعث والدین کھو دینے والے بچوں کا پرسان حال کون ہوتا ہے؟
'کوئی بھی ہمارے والدین کے مرنے کے بعد ان کو چھونا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے میں نے اپنی والدہ کی قبر کھود کر انھیں دفن کر دیا۔ میں نے یہ سب تن تنہا ہی کیا۔'
18 سالہ سونی کماری نے اپنی والدہ کی تدفین کے لیے پی پی ای کٹ پہن رکھی تھی۔ انھوں نے بی بی سی کی دیویہ آریہ کو ایک ویڈیو کال پر بتایا کہ کیسے ایک فوٹو گرافر نے ان کی جدوجہد کو ریکارڈ کر کے پوری دنیا تک پہنچا دیا۔
انھیں وہ آخری دن تفصیل سے یاد ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کووڈ کی وجہ سے ان کے والد کی موت ہو چکی تھی اور وہ اپنے دو چھوٹے بھائی بہنوں کو گھر پر چھوڑ کر ایمبولینس کے ذریعہ اپنی والدہ کو ہسپتال لے کر بھاگی تھیں۔
لیکن ان کی ماں کو بچایا نہیں جا سکا اور جب سونی اپنی والدہ کی لاش لے کر مشرقی انڈین ریاست بہار کے دور دراز گاؤں واپس آئیں تو انھیں پتا چلا کہ کوئی بھی
ان تینوں بچوں کی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔
اس دوران اچانک مجھے ان کے 12 سالہ بھائی اور 14 سالہ بہن سکرین پر نظر آتی ہیں جو کہ پیچھے سے جھانک رہی ہیں۔
سونی نے بتایا: 'تنہا رہ جانے کا احساس سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ گھر میں اس کھانے کے سوا کچھ نہیں تھا جو میری ماں نے ہمارے لیے آخری بار پکایا تھا۔ کسی نے بھی ہمیں اس وقت تک کچھ نہیں دیا جب تک کہ ہماری کورونا کی جانچ منفی نہیں آ گئی۔'
جو لوگ اپنے دونوں والدین کووڈ 19 کے باعث کھو دیتے ہیں ان کے لیے لوگوں کی دوری ایک اضافی چیلنج ہوتا ہے جس سے انھیں نمٹنا ہوتا ہے۔
انڈیا میں خواتین و بچوں کے امور کی وزیر اسمرتی ایرانی کا کہنا ہے کہ ایسے بچوں کے لیے امداد موجود ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے سنیچر کے روز کورونا وبا میں اپنے والدین کو کھونے والے بچوں کے لیے کئی فلاحی فیصلوں کا اعلان کیا ہے۔
اس کے بجائے مدد کی اپیلیں پہلی بار آن لائن کی جا رہی ہیں اور ایسے بچوں کو گود لینے کے لیے کہا جا رہا ہے۔
واٹس ایپ اور ٹوئٹر کے ذریعہ گردش کرنے والی ان اپیلوں میں عام طور پر بچوں کے نام عمر اور رابطے کے لیے فون نمبر بھی دیا جا رہا ہے۔
ٹوئٹر پر ایک اسی طرح کے پیغام میں لکھا گیا ہے کہ 'دو سال کی بچی، دو ماہ کا بچہ، ماں اور باپ دونوں کووڈ کی وجہ سے فوت ہو گئے۔ زیادہ سے زیادہ شیئر کریں تاکہ بچوں کو اچھے والدین مل سکیں۔' ہم نے اس ٹویٹ کو یہاں پیش نہیں کیا ہے کیونکہ حکومت کی اپیل ہے کہ اس قسم کے پیغامات کو شیئر نہ کیا جائے۔
ایسا ہی ایک پیغام میدھا مینل اور ان کے دوست ہری شنکر کو بھی موصول ہوا۔
ان کے فطری جذبے نے بچے کو گود لینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ لیکن ان کے دوست ہری نے بتایا کہ انڈیا کا قانون اس کی اجازت نہیں دیتے۔
قانون کے مطابق اگر کوئی بچہ یتیم ہو جاتا ہے تو اس کی اطلاع قومی ہیلپ لائن 'چائلڈ لائن' کو دینی چاہیے۔
چائلڈ لائن کے عہدیدار ریاستی سماجی کارکنوں کو اطلاع دیتے ہیں جو معلومات کی تصدیق کرتے ہیں اور بچے کی ضروریات کا جائزہ لیتے ہیں۔ چلڈرن ویلفیئر کمیٹی فیصلہ کرتی ہے کہ آگے کیا ہونا ہے۔
لیکن عام حالات میں بھی یتیم ہوجانے والے بچے کو گود لینے کا عمل بہت آسان نہیں ہے۔
حکومت کے سنہ 2018 کے اپنے آڈٹ سے پتہ چلتا ہے کہ بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے تمام اداروں میں سے پانچویں حصے سے بھی کم ایک یتیم بچے کے خاندان کو گود لینے سے قبل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آن لائن پر شیئر کی جانے والی گود لینے کی اپیلوں سے بیدار ہوتے ہوئے حکومت نے ملک کے سرکردہ اخباروں میں اشتہار جاری کرتے ہوئے اس کے خلاف متنبہ کیا
سونی کماری اور ان کی بہن اور بھائی کو اب ریاستی حکومت کی طرف سے کھانا اور مالی امداد اور سماجی کارکنوں کے ذریعہ اکٹھا کی جانے والی کچھ رقم ملی ہے۔
ان کے آگے لمبی عمر پڑی ہے اور فی الحال ان کے پاس آمدنی کا کوئی مستحکم ذریعہ نہیں ہے۔
سونی اپنے والدین کے بارے میں کہتی ہیں: 'ہم انھیں ہر دن یاد کرتے ہیں۔ جب وہ زندہ تھے تو ہماری زندگی یکسر مختلف تھی۔ انھوں نے ہمارے لیے خواب دیکھے تھے اور گھر میں محدود وسائل کے باوجود بھی وہ ہماری ضروریات ہمیشہ مقدم رکھتے تھے۔'
ان کی نانی تھوڑے دنوں کے لیے ان کے ساتھ رہنے آئی ہیں لیکن سونی کا کہنا ہے کہ وہ جانتی ہیں کہ ان کے بہن بھائی بنیادی طور پر ان کی ذمہ داری ہیں۔
وہ کہتی ہیں: 'آخر کار ہمیں ایک دن اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ ہمیں ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرنی ہوگی۔'
وہ ان تمام امداد کے منصفانہ استعمال کرنے کے بارے میں پرامید ہے جو ان کے مستقبل کے لیے بہتر ہوں گی۔ ان کے والد گاؤں کے دیسی ڈاکٹر تھے۔ سونی کو امید ہے کہ ایک دن کم سے کم ان کی ایک بہن یا بھائی اپنے والد کے نقش قدم پر چلیں گے۔





تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں